حضرت عائشہ کے بارے شیعوں سے کچھ اہم سوالات

 

حضرت عائشہ کے بارے شیعوں سے کچھ اہم سوالات

سوال نمبر ١: سوره احزاب کی آیت نمبر6 میں ہے کا نبی کا حق مومنین
کی جانوں پر ان سے زیادہ ہے اور نبی کی بیویاں مومنین کی امہات ہیں …اس آیت کے بارے شیعہ نقطہ نظر کیا ہے؟

جواب :اس آیت مبارکہ سے رسول پاک اور آپ ازواج کی عظیم شان کا پتا چلتا ہے اسی عظیم شان کی وجہ سے کسی کو بھی اجازت نہ ہوئی کا وہ حضور پاک کی بیویوں سے حضور پاک کی زندگی کے بعد شادی کرے .لیکن اس آیت کا یہ مطلب نہیں کہ حضور کی بیویاں حقیقی ماؤں کی طرح ہیں اگر ایسا ہوتا تو حجاب کی پابندی نہ ہوتی

ہم یہاں پر یہ کہنا چاہتے ہیں کہ حضور پاک کی بیوی بن جانے سے بات ختم نہیں ہوجاتی سوره احزاب کی آیت نمبر 30 میں ارشاد باری ہے کہ اے نبی کی بیویو! تم میں سے جو کوئی بے حیائی اور برائی کرے گی تو اسے دوہری سزا دی جائے گی اور یہ بات اللہ کیلئے بالکل آسان ہے۔

اس آیت مبارکہ سے صاف پتا چلتا ہے کہ نبی پاک کی بیویوں کے بارے میں کسی گارنٹی کا اعلان نہیں کیا گیا بلکہ نبی پاک کی بیویوں کو دوہری سزا کے بارے متنبہ کیا گیا ہے.

سوال نمبر 2 : اگر حضور پاک حضرت عائشہ سے ناخوش تھے تو حضور پاک نے انکو طلاق کیوں نہ دی ؟ حضرت عائشہ کے ساتھ اپنی زندگی کیوں گزاری ؟

جواب: ہم یہاں پر یہ بتانا چاہتے ہیں کا حضور پاک کا ہر عمل وحی کے تابع تھا اس میں حضور پاک کے لئے بھی امتحان ہوسکتا ہے اور حضور پاک کی بیویوں کے لئے بھی امتحان
صحیح مسلم کی روایت سے پتا چلتا ہے کہ حضور پاک نے ایک مہینہ تک بیویوں سے رابطہ ختم کیا اسکی وجہ یہ تھی کہ حضرت عائشہ سمیت کچھ بیویاں حضور پاک کو واپس جواب دیا کرتی

قرآن مجید سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ حضرت نوح اور حضرت لوط نے اپنی عمر ایسی بیویوں کے ساتھ گزاری جو انکو اذیّت دیا کرتی تھی اور جہنمی ہیں
سب سے اہم بات ہے کہ ہر عورت اور مرد حالت امتحان میں ہے صرف وہی کامیاب ہے جو آخری سانس تک حضور پاک کی تعلیمات پر عمل کرتا رہا

سوال نمبر 3 : جیسا کہ حضرت عائشہ حضرت ابوبکر کی بیٹی ہیں . کیا یہ وجہ ہے کہ شیعہ انکے خلاف بات کرتے ہیں ؟

جواب : جی نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے

حضور پاک کی ایک بیوی حضرت ام حبیبہ جو معاویہ بن ابوسفیان کی بہن تھی شیعہ انکے خلاف کبھی بات نہیں کرتے حضرت عائشہ کے دو بھائی محمّد بن ابوبکر اور عبدلرحمان بن ابوبکر اہلبیت کے غلام تھے شیعہ ان سے بہت محبت رکھتے ہیں

سوال نمبر 4 : سوره مبارکہ نور میں حضرت عائشہ کو بلکل بری الزمہ قرار دیا گیا ہے شیعہ اس بارے کیا کہتے ہیں ؟

جواب : ہماری کتب میں اس آیات کہ شان نزول حضرت ماریہ قبطیہ کے بارے بھی ہے جو حضور پاک کی ایک دوسری بیوی تھی . اگر سوره نور کی آیات کو حضرت عائشہ کے بارے ہی مان لیا جانے تو ہم کہتے ہیی کہ جو کوئی بھی حضرت عائشہ پر زنا کی تہمت لگانے وہ خلاف قرآن کہے گا اور اپنی حدود کو کراس کرے گا اور قیامت کے دن اسکا جواب دہ ہوگا

سوال نمبر 5 : شیعہ ہمیشہ یہی کہتے ہیں کہ قرآن اور اہلبیت کی پیروی کرو . کیا حضور پاک کی بیویاں اہلبیت کہ حصّہ نہیں ہیں؟

جواب : یقیناً آل اور اہل کا مطلب ایک ہی ہے اور یہ الفاظ قرآن  میں حضرت ابراہیم اور حضرت لوط کے گھر والوں کے لئے استعمال ہوے جن میں ان انبیا کی بیویوں کا بھی ذکر ہے اگر اہلبیت کا لفظ لغوی معنوں استعمال کیا جاۓ تو بیویاں اہلبیت کا حصّہ ہیں  اگر اہلبیت کا لفظ اصطلاحی مفہوم میں استعمال ہو تو بیویاں اہلبیت کا حصّہ نہیں ہیں

ہم بتانا چاہتے  ہیں کہ قرآن مجید میں کچھ الفاظ بعض جگہوں پر لغوی معنوں میں استعمال  ہوے ہیں اور پھر ووہی الفاظ قرآن و حدیث میں اور اصطلاحی طور پر اپنے خاص معنوں میں استعمال ہوتے ہیں

قرآن مجید سورة يوسف میں آیت نمبر 39 میں ارشاد ہے میرے قید خانے کے ساتھیو !ذرا یہ تو بتاؤ کہ متفرق قسم کے خدا بہتر ہوتے ہیں یا ایک خدائے واحدُ و قہار.

اس آیت میں ایسے افراد کو ایک نبی کا صحابی کہا گیا ہے جو ایک خدا بھی نہیں مناتے تھے

اگر صحابی کا لفظ لغوی معنوں میں لیا جاۓ تو اس مراد کوئی آدمی بھی ہوسکتا ہے جو کسی کی صحبت میں رہا ہو اگر صحابی کا لفظ اصطلاحی معنوں میں لیا جانے تو اس سے مراد مخصوص افراد ہیں جو حضور پاک پر ایمان لاۓ اور حضور پاک کی صحبت میں رہے

سوره بقرہ آیت نمبر 256 میں فرمایا گیا ہے فَمَن يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ .اس آیت میں کفر کا لفظ لغوی معنوں میں استمال ہوا ہے کہ جس نے طاغوت سے کفر اختیار کیا اس آیت  میں طاغوت سے کفر کرنے کو سراہا گیا ہے جبکہ ہم جانتے ہیں کا کفر کا اصطلاحی استمال الله اور اسکے رسول کے انکار کے  لئے ہوتا  ہے

ہم آخر میں صرف ایک اور مثال دے دیتے ہے قرآن مجید میں صلوات کہ لفظ دعا اور درود کے لئے لفظی معنوں میں استمال ہوا ہے جبکہ یہ لفظ قرآن مجید میں اصطلاحی طور پر نماز کے لئے استمال ہوتا ہے

جب شیعہ اہلبیت کہ لفظ مخصوص افراد کے لئے استمال کرتے ہے جسمیں  حضور کی بیویاں شامل نہیں ہیں شیعوں نے یہ لفظ خود حضور پاک سے سیکھا ہے قرآن پاک کی آیات کی تفسیر حضور پاک سے بڑھ کر کوئی بھی نہیں جان سکتا ہے

صحیح مسلم کی حدیث جو خود حضرت عائشہ سے ہی مروی ہے حضور پاک نے کسی بیوی یا حضرت عائشہ کو شامل نہیں کیا صرف امام علی حضرت فاطمہ امام حسن امام حسین کو ایک چادر کے نیچے اکٹھا کرکے اہلبیت کی پاکیزگی کہ اعلان فرمایا اور آیت تطہیر کی تلاوت فرمائی (33 :33 ) آپ اس لنک سے صحیح مسلم کی حدیث پڑھ سکتے ہیں

یہاں پر ہم اس نقطے کا بھی اضافہ کرنا چاہتے ہیں کا سوره احزاب میں جہاں پر الله تعالیٰ نے حضور کی بیویوں کا ذکر کیا وہاں جمع مونث کے صیغے اتَّقَيْتُنَّ، بُيُوتِكُنَّ استعمال ہوۓ اور آیت 33 کا آخری حصّہ جو پاک و پاکیزہ افراد کے لئے ہے جنکی پیروی واجب ہے اس میں جمع مذکر کے عَنكُمُ، وَيُطَهِّرَكُمْ صیغے استعمال ہوۓ کیونکہ اسمیں غالب اکثریت میں مرد ہیں جو حضور پاک امام علی امام حسن اور امام حسین  ہیں اگر آیہ تطہیر میں بیویاں شامل ہوتی تو جمع مؤنث کا صیغے استعمال ہوتے

آپ ترمذی کی حدیث اس لنک سے پڑھ سکتے ہے حضور کی بیوی ام سلمہ نے حضور پاک  امام علی حضرت فاطمہ امام حسن امام حسین کے ساتھ ایک چادر  میں داخل ہونے کی خواہش کی حضور پاک نے اپنی بیوی حضرت ام سلمہ کو ان اہلبیت کے ساتھ شامل نہیں فرمایا

حضور پاک نے حضرت ام سلمہ کو بتا دیا کہ آپ خیر پر ہیں مگر ان اہلبیت کہ حصّہ نہیں ہیں جن کے لئے آیہ تطہیر نازل ہوئی اور جنکی پیروی واجب ہے

یہاں پر ہم صحیح مسلم سے دو احادیث پیش کر رہے ہیں پہلے والی حدیث  میں حضرت زید بن ارقم نے پوچھنے والے کو بتایا کہ عمومی طور پر بیوی اہلبیت  میں شمار ہوتی ہے لیکن یہاں پر وہ اہلبیت ہیں جو حضور کا خاندان ہے جن پر صدقہ حرام ہے ..صحیح مسلم کی دوسری حدیث جس  میں حضور پاک نے فرمایا کہ میں تمھارے لئے دو بھاری چیزیں قرآن اور اہلبیت چھوڑ کر جارہا رہا ہوں حضرت زید بن ارقم رض نے اس کو تفصیل سے بیان فرمایا اور وضاحت کردی کہ جو اہلبیت قرآن کے ہم پلہ ہیں وہ حضور کا خونی رشتہ ہیں بیوی تو دوسرے خاندان سے آتی ہے جب اسکو طلاق دی جاتی ہے تو اپنے خاندان  میں واپس لوٹ جاتی ہے-آپ اس لنک سے صحیح مسلم کی دونوں احادیث پڑھ سکتے ہیں

اگر ہم ترمذی اور نسائی سے حضرت زید بن ارقم رض سے مروی احادیث کو پڑھتے ہیں تو یہ بات صراحت سے پتا چلتی کہ قرآن کے ساتھ جن اہلبیت کو امّت کی ہدایت کے لئے ما مور کیا گیا ہے وہ اہلبیت حضور کی عترت ہیں  

عترت سے مراد حضور پاک کا خونی رشتہ اور انکی ذریّت ہیں اگر ہم دوسری احادیث کی روشنی میں حدیث ثقلین کو دیکھتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ وہ 12 امام ہیں جنکو قرآن کے ساتھ امّت کی ہدایت کے لئے ما مور کیا گیا وہ 12 امام حضور پاک کا خونی رشتہ ہیں اور حضور کی اولاد ہیں

مباہلہ کے لئے حضور پاک کو حکم ہوا 3 :61 پیغمبر علم کے آجانے کے بعد جو لوگ تم سے کٹ حجتی کریں ان سے کہہ دیجئے کہ آؤ ہم لوگ اپنے اپنے فرزند, اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں

آیہ مباہلہ میں نساء کہ لفظ استمال ہوا ہے یہی لفظ سوره احزاب میں حضور پاک کی بیویوں کے لئے بھی استمال ہوا لیکن رسولخدا نے کسی بیوی کو اپنے ساتھ مباہلہ میں نہیں بلایا . مباہلہ میں ایک بار پھر مخصوص افراد  امام علی حضرت فاطمہ امام حسن امام حسین کو اکٹھا کرکے دنیا کو دکھایا اور بتایا کہ یہ ہیں میرے اہلبیت جو پاک و پاکیزہ  ہیں جن میں بیویاں ہر گز شامل نہیں  ہیں . آپ اس لنک سے صحیح مسلم سے ثبوت دیکھ سکتے  ہیں

حضور پاک نے دنیا کو یہ بھی بتا دیا کہ قرآن کے ساتھ جن کی پیروی واجب ہے وہ اہلبیت میری عترت اور میرا خون ہے بیویاں حضور کی عترت اور حضور کہ خونی رشتہ نہیں ہیں ..حضور پاک نے میدان عرفات  میں بتایا کہ یہ اہلبیت میری عترت ہے ..آپ اس لنک سے ترمذی کی یہ حدیث پڑھ سکتے ہیں جو حسن حدیث ہے

حضور پاک نے دنیا کو ایک بار پھر غدیر خم میں بھی بتا دیا کہ بھول مت جانا قرآن اورجو اہلبیت تمہاری ہدایت کے لئے ہیں وہ اہلبیت میری عترت ہیں  اور بیوی کبھی بھی عترت نہیں ہی سکتی. آپ نسائی سے یہ حدیث پڑھ سکتے ہیں

ہم یہاں پر ایک اور نقطے اضافہ کرنا چاہتے  ہیں کہ حضور پاک نے فرمایا کہ قرآن اور اہلبیت ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے اہلبیت کا عمل کبھی بھی قرآن کے خلاف نہیں ہو سکتا قرآن کو اگر عملی صورت  میں دیکھنا چاہتے ہو تو اہلبیت کے عمل کو دیکھنا . اگر ہم حضور کی بیویوں کو اہلبیت  میں شامل کرتے  ہیں تو حضرت عائشہ قرآن کے خلاف عمل کرتی ہوئی نظر آتی  ہیں

سوره مبارکہ احزاب کی آیت نمبر 33 کے پہلے حصّے میں حضور پاک کی بیویوں کے بارے یوں ارشاد بری تعالیٰ ہوتا ہے ” ور اپنے گھر میں بیٹھی رہو اور پہلی جاہلیت جیسا بناؤ سنگھار نہ کرو “

ہم سب جانتے ہے کہ حضرت عائشہ نے امام علی کے خلاف جنگ لڑی اس جنگ کے لئے حضرت عائشہ نے مکہ سے بصرہ کہ سفر کیا اور امام علی کے خلاف جنگ کہ آغاز کیا اس جنگ میں ہزاروں مسلمان شہید ہوے

حضور پاک کی دوسری بیویوں نے حضرت عائشہ کو بتایا کہ قرآن ہم کو گھروں میں بیٹھنے کا حکم دیتا ہے مگر آپ حضرت علی کے خلاف جنگ کے لئے جا رہی  ہیں لیکن حضرت عائشہ نے کسی کی نا سنی

ہم یہاں پر سوره مبارکہ نساء کی آیت نمبر 59 کے بارے بتانا چاہتے ہیں کہ قرآن مجید  میں ارشاد باری تعالیٰ ہے  ” ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو رسول اور صاحبانِ امر کی اطاعت کرو جو تم ہی میں سے ہیں پھر اگر آپس میں کسی بات میں اختلاف ہوجائے تو اسے خدا اور رسول کی طرف پلٹا دو اگر تم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھنے والے ہو- یہی تمہارے حق میں خیر اور انجام کے اعتبار سے بہترین بات ہے 

اگر ہم اس آیت مبارکہ کا مفہوم کسی بھی سنی عقیدہ رکھنے والے نقطہ نظر سے دیکھتے ہے تو امام علی اس کے مطابق صاحب امرہیں اور امام علی کی اطاعت واجب تھی مگر حضرت عائشہ نے اطاعت نہیں کی بلکہ جنگ کی

کچھ افراد یہ کہتے ہیں کا حضرت عائشہ کےپاس اجتہاد کا حق تھا

یہ بات بہت ہی عجیب و غریب ہے- حقیقت یہ ہے کہ کسی کو بھی الله تعالیٰ کے حکم کے خلاف کسی اجتہاد اور ذاتی راۓ کا کوئی حق نہیں ہے

ہمارا خیال ہے کہ ہم نے کافی و وافی ثبوت دے کر یہ بات سمجھا دی ہے کہ حضورپاک نے قرآن کے ساتھ جن اہلبیت کی پیروی کا حکم دیا ان میں بیویاں شامل ںہیں ہی