The Prophet cried on the kiliing of Imam Hussain حضور پاک کا امام حسین کی شہادت پر گریہ

English Translation:

Sayyidah Salama reported that she went to Sayyidah Umm Salama (wife of the holy Prophet) and found her weeping. She asked her what made her weep. She said,

“I saw Allah’s Messenger (RA) in my dream. There was dust on his head and beard. I asked the reason then he said, ‘I have just witnessed Husayn’s murder.”

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 


عبداللہ بن نجی نے اپنے باپ سے روایت کی کہ وہ طہارت کا برتن اٹھا کر حضرت علی ع کے ساتھ چل رہے تھے،جب وہ صفین کی طرف جاتے ہوئے نینوی مقام تک پہنچے تع حضرت علی ع نے آواز دی: ابوعبداللہ ٹھر جاو دریائے فرات کے کنارے ٹھر جاو۔ میں نے کہا: ادھر کیا ہے؟ انھوں نے جواب دیا کہ میں ایک دن نبی ص کے پاس گیا اس حال میں کہ آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ میں نے کہا اے اللہ کے رسول ص کس چیز نے آپکو اشک بار کر دیا؟ آپکی آنکھیں کیوں آنسو بہا رہی ہیں؟؟ انہوں نے فرمایا کہ آپسے پہلے جبرئیل امین میرے پاس سے اٹھ کر گئے ہیں انہوں نے مجھے خبر دی ہے کہ حسین ع کو دریاے فرات کے کنارے قتل کر دیا جائے گا۔ پھر جبرئیل نے کہا کہ کیا میں آپکو اس جگہ کی مٹی کی خوشبو سونگھاوں؟؟ میں نے کہا جی ہاں۔پس اس نے آپنا ہاتھ لمبا کیا مٹی کی مٹھی بھری اور مجھے دے دی۔ میں اپنے آپ پر قابو نا پا سکا اور رونے لگ گیا۔

حوالہ:مسند احمد ج 1 ص 85،سلسلہ الاحادیث الصحیحہ جلد 5 صفحہ 108

اس حدیث سے واضح طور پر پتا لگتا ہے کہ امام حسین ع کی حیات میں نا صرف رسول ص نے بلکے نبی ص کی وفات کے بعد امام علی ع نے بھی گریا کیا۔ یعنی امام حسین ع کو بار بار یاد کر کے انکی زندگی میں ہی انکی مصیبت پر گریہ و زاری کی گئ۔

ایک اور بات جو اس حدیث سے واضح ہوتی ہے وہ یہ کہ نبی ص واضح طور پر فرما رہے ہیں کہ جب جبرئیل ع نے میرے سامنے مصائب امام حسین ع بیان کیے تو میں خود پر ضبط نارکھ سکا اور اشکبار ہو گیا۔ یعنی امام حسین ع کے مصائب سننا اور سنانا سنت رسول ص ہے نا کہ بدعت۔ اور امام حسین ع کے مصائب سن کر خاموش ہونے کی بجائے ضبط کےبندھن توڑ کر گریا کرنا بھی سنت رسول ص ہے اور منافی صبر نہیں۔

☆☆ماتم و عزاداری کا ثبوت☆☆

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ترجمہ: اللہ پسند نہیں کرتا ماتم کو۔ ہاں مگر سوائے اس کے لیے جو مظلوم ہو۔
حوالہ: سورة النسا، آیت، 148

مختلف کتابوں سے تفسیر

امام حسین(ع) سے زیادہ کون مظلوم ہے اور قرآن کہتا ہے مظلوم کا ماتم جائز ہے

حوالہ: تفسیر ابن کثیر،جلد2،ص،20
صحیح بخاری شریف ،جلد2،ص،820

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ترجمہ۔ابراہیم ؑ کی بیوی(سارہ) چلاتی ہوئی آئیں اور اپنا منہ پیٹ کر کہنے لگی کہ(ہائے ایک تو)بڑھیااور (دوسرا)بانجھ

سورة الذاریات، آیت،29

اس سے ثابت ہوا کے نبی کی بیوی سارہ نے منہ کا ماتم کیا اور روتی بھی رہی

حضرت آدم ؑ نے اپنے تن پر اتنا ماتم کیا کہ انکی ہڈیاں نظر آنے لگیں۔

حوالہ۔کتاب اہلیسنت میراج النبوہ۔باب،1۔ص،248

مصیبت میں اپنا سر پیٹنا حضرت یوسف ؑ کی سنت ہے۔

حوالہ۔تفسیر کبیر۔جلد،5۔ص،158

بی بی عا ئشہ کاماتم

بی بی عائشہ کہتی ہیں کہ جب آپ کی وفات ہوئی تو ان کا سرمیری گود میں تھا پھر میں نے ان کا سر تکیہ پے رکھا اور عورتوں کے ہمراہ ماتم کرتی ہوئی کھڑی ہو گئی اور میں نے اپنا منہ پیٹ لیا

حوالہ۔کتاب اہلیسنت مسند احمد بن حنبل طبع مصر، ج6، ص274

صحابی رسول اللہ حضرت اویس قرنیؓ کاماتم

جب جنگ احد میں رسول اللہ کے2دانت شہید ہوئے تو صحابی رسول اللہ حضرت اویس قرنی ؓ نے شدت غم میںاپنے سارے دانت توڑ دیئے

حوالہ۔صحیح بخاری

رسول خدا حضرت محمد(ص) کاماتم

رسول خداحضرت محمد نے سینہ کوبی کی جب آپ کے چچا حضرت امیر حمزہ شہید ہونے کے بعد ہندہ(لعنت اللہ) نے ان کا کلیجا سینے سے نکال کر اپنے دانتوں سے چبایا

حوالہ۔صحیح بخاری، والیم2، ص50

رسول خدا (ص) کا شہید کے لیے رونا

1: رسولِ خدا (ص) نے اپنے چچا حضرت حمزہ کی شہادت پرلوگوں کو رونے اور غمزدہ ہونے کا حکم دیا

حوالہ۔ مسندابن حنبل،ج،2،ص،41

2۔رسولِ خدا (ص) جنگ موتہ کے شہدا پر روئے

حوالہ۔ صحیح بخاری،ج1
کتاب الجنائز،باب786، ح1166
صحیح بخاری،ج2
کتاب الجہاد، باب52، ح5
کتاب المناقب، باب409ح 945

حضرت عثمان پر ان کی بیویوں نے ماتم کیا

حضرت عثمان کے قتل کے بعد ان کی بیویوں نے آہ و فریاد کی اور منہ پیٹنے لگیں

حوالہ۔ نہج البلاغہ، جلد2، ص،97
(علامہ اہلسنت عبدالحمید بن الحدید کی شرح)

صحابی خالد بن ولید کا ماتم

خالد بن ولید پر بنی مغیرہ کی عورتیں سات یوم تک مکہ اور مدینہ میں روتی رہیں اور انہوں نے گریبان پھاڑے اور منہ پیٹے

حوالہ۔ کنزالعمال،جلد8، ص،119
(روایت اہلسنت ملا متقی حسام الدین)

امام احمد بن حنبل کی وفات پر ماتم

زمانہ متوکل عباسی میں اہلسنت نے اپنے امام احمد بن حنبل کی وفات پر ماتم کیا۔ متوکل کو اہلسنت"محی السنتہ"یعنی سنت کوزندہ رکھنے والا خلیفہ مانتے ہیں، اسی متوکل نے حکم دیاتھاکہ جس جگہ امام احمد بن حنبل کی نماز جنازہ پڑھی گئی تھی، وہاں ماتم کیا جائے یہاں تک کہ پچیس (25) لاکھ آدمیوں نے وہاں ماتم کیا

حوالہ۔حیوٰةالحیوان(علامہ اہلسنت دمیری )
ذکر خلافت متوکل وتہذیب الاسماء(علامہ نودی)

حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا عبد الرحمن ثنا حماد بن سلمة عن عمار بن أبي عمار عن ابن عباس قال رأيت النبي صلى الله عليه وسلم في المنام بنصف النهار أشعث أغبر معه قارورة فيها دم يلتقطه أو يتتبع فيها شيئا قال قلت يا رسول الله ما هذا قال دم الحسين وأصحابه لم أزل أتتبعه منذ اليوم
قال عمار فحفظنا ذلك اليوم فوجدنا قتل ذلك اليوم
(ترجمہ)
حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ میں نے ایک دن دوپہر کو نبی (ص) کو خواب میں دیکھا ،آپ(ص) کے بال بکھرے ہوئے اور گرد آلود تھے،آپ(ص) کے ہاتھ میں خون کی ایک بوتل تھی.میں نے پوچھا: میرے ماں باپ آپ (ص) پر قربان ہوں، یہ کیا ہے ? آپ (ص) نے فرمایا: یہ حسین (ع) اور ان کے ساتھیوں کا خون ہے ، میں اسے صبح سے اکٹھا کر رہا ہوں
راوی کہتا ہے کہ حساب لگایا گیا تو حسین (ع) اسی دن شہید ہوگئے تھے
یہ حدیث مبارک ، مندرجہ ذیل علماء اھل سنت نے اپنی اپنی کتب میں نقل کی ہیں
مسند احمد بن حنبل // احمد بن حنبل//تحقیق:شعيب الأرنؤوط//ج 4،ص 59تا60//حدیث: 2165//موسستہ الرسالتہ بیروت جز:50
اس حدیث کی سند کے بارے میں محقق کتاب کہتا ہے:قال شعيب الأرنؤوط : اسناده قوي على شرط مسلم
مسند احمد بن حنبل // احمد بن حنبل//تحقیق: أحمد شاكر//ج 4،ص26//حدیث: 2165/دارالمعارف مصر، جز:16
اس حدیث کی سند کے بارے میں محقق کتاب کہتا ہے:قال أحمد شاكر : إسناده صحيح
مستدرک//امام حاکم //تلخیص:علامہ ذہبی//ج 4//ص 312//ح:8368//قدیمی کتب خانہ پاکستان،جز:4
اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد امام حاکم کہتے ہیں :قال الحاكم : هذا حديث صحيح على شرط مسلم ولم يخرجاه
اور علامہ ذہبی کہتا ہے:قال الذهبي : على شرط مسلم
فضائل صحابہ //احمد بن حنبل //تحقیق:ڈاکٹر وصی اللہ بن محمد عباس //ج : 2 // طبع الاولیٰٰ 1403ھ ،جز2،جامعہ ام القری مکہ سعودیہ//ص778//حدیث:1380
اس حدیث کی سند کے بارے میں محقق کتاب کہتا ہے:قال وصي الله بن محمد عباس : اسناده صحيح
اتحاف الخيرة المهرة //شہاب الدین بوصیری // ج7// ص238//ح:6754//طبع دار الوطن بیروت
اس حدیث کی سند کے بار ے میں بوصیری کہتا ہے:وقال البوصيري : رواه ابو بكر بن ابي شيبة واحمد بن حنبل واحمد بن منيع وعبد بن حميد بسند صحيح
مجمع الزوائد // ہیثمی // محقق:عبداللہ محمد//ج 9//ص 310// ح:15141//طبع:دارالفکر بیروت،جز:10
اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد ہیثمی کہتا ہے:وقال الهيثمي : رواه أحمد والطبراني ورجال احمد رجال الصحيح
مشکاۃ المصابیح // الخطیب تبریزی//تحقیق:ناصر الدین البانی// ج 3 //ص 1741//ح : 6172//طبع دار الکتب اسلامی
اس حدیث کی سند کے بارے میں محقق کتاب کہتا ہے:قال ناصرالدین البانی : اسناده صحيح
تذکرۃ//قرطبی//محقق:صادق بن محمد ابراہیم //ص1120//طبع:مکتبہ دار المنھاج سعودیہ عرب
اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد علامہ قرطبی کہتا ہے کہ اس کی سند صحیح ہے اور سند میں کوئی طعن نہیں ہے
اس حدیث کی سند کے بارے میں محقق کتاب کہتا ہے: اسناده قوي على شرط مسلم
البدایہ والنھایہ//ابن کثیر//محقق:عبدالمحسن ترکی//ج:11//ص 573//طبع الاولیٰٰ 1418 ھ ،جز:21 الھجر بیروت
ابن کثیر اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہتا ہے : اسناد قوی
اس حدیث کی سند کے بارے میں محقق کتاب کہتا ہے:قال عبدالمحسن ترکی : اسناده صحيح
اُسد الغابہ // ابن اثیر// ج 1 // ص 572//اردو ترجمہ: عبدالشکور لکھنوی // طبع پاکستان//ترجہ : امام حسین ع
الاصابہ //ابن حجر عسقلانی //ج 2// ص 17//طبع مصر //ترجمہ: امام حسین ع
استیعاب//ابن عبدالبر//ج 1//ص 395//طبع:بیروت//ترجمہ : امام حسین ع
تبصرہ
اس صحیح روایت سے معلوم ہوا کہ نبی (ص) امام حسین (ع) کی شہادت پر سخت غمگین تھے .اور آج شیعہ اثناعشریہ سنت رسول (ص) کی اتباع کرتے ہوئے امام حسین (ع) کا غم مناتے ہیں اور غمگین ہوتے ہیں